سہمی سہمی ہے تمنا،دل ناشاد میں
جس طرح بلبل کوئی،گلشن پرباد میں
جانتے ھو انجام، کیا،اس نالہءدلدوز کا
آہ بھی تو ڈھلنے لگی ہے،آج تو فریاد میں
پھر گمان و وھم کو دے،ساز و نغمہ کی ترنگ
سامری بڑھنے نہ پائے،اب کسی ایجاد میں
تیری الفت نے وہ گھولا،فکر فردا میں زھر
غم بھی ہے کچھ بے مزہ ڈا،ہے ملاوٹ یاد میں
جو نہیں اپنا،کسی کا ھو،بھیبتو کس کام کا
تو نے کیا دیکھا ہے بتلا،بندہ آزاد میں
اے دل ناداں!ھو جا وقف،تسلیم و رضا
یار کیوں پیچھے رہیے صیاد سے،بیداد میں
ٹھیک ہے اے سحر،دل تو آباد ھو جائے، مگر
داد بھی دیتے نہیں،یہ لوگ، تو امداد میں۔۔۔۔سحر۔۔۔۔
۔