یہ بت جو مرے بام تصور پہ کھڑے ہیں

یہ بت جو مرے بام تصور پہ کھڑے ہیں




 یہ بت جو مرے بام تصور پہ کھڑے ہیں

برسوں یہ مرے شوق کے محتاج رہے ہیں

مانا کہ وہ ہمدوش ہیں تقدیر کے لیکن

ہم لوگ بھی حالات کے شاگرد بنے ہیں

اس شخص کو آنکھوں پہ بھروسہ نہیں ورنہ

ٹوٹے ہوئے شیشے میں بھی کچھ عکس پڑے ہیں

لوگوں کو سناتے ہیں جو صدیوں کے فسانے

اس دور کے بچے تو بڑوں سے بھی بڑے ہیں

یہ پاس محبت ہے کہ اس شخص کی خاطر

ہم اپنے جنوں سے بھی کئی بار لڑے ہیں

اے چشم گریزاں مرے پندار جنوں میں

کچھ ایسے مناظر ہیں جو بیمار پڑے ہیں

مر کر جئیں گے ہم بھی سہولت سے کہ اکثر

جینے کے ارادے پہ کئی بار مرے ہیں

وہ ہم سے بچھڑنے پہ مصر ہوگئے عابد

وہ کب ملے ہیں ؟ بات یہ ہم سوچ رہے ہیں


عابد بنوی