ذرا کسی نے چُھوا اور آگ اُبھر آئی
عجیب چیز ہے خاکستر محبت بھی
ذرا کسی نے چُھوا اور آگ اُبھر آئی
ہوا تھا ہجر کا احساس لمحہ بھر کے لیے
پھر اس کے بعد تیری یاد عمر بھر آئی
بہار آئے نہ آئے، کَلی کھِلے نہ کھِلے
نسیم صبح چمن کا طواف کر آئی
نہ جانے کیا تیرے غم پر گزر گئی ہوگی
میری ہنسی پہ زمانے کی آنکھ بھر آئی
قدم قدم پہ تیرا ہجر بے نقاب ہوا
نفس نفس سے تیرے قرب کی خبر آئی
جسے چراغِ شبِ غم میں ہم نے دیکھا تھا
تیری نظر میں وہی روشنی نظر آئی
بہت حسین ہے خوابوں کے سلسلے قابل
ستارے ڈوب گئے تو سحر نظر آئی
"قابل اجمعری"
semore