ہم کیا خزاں کے لمس سے سرشار ہو گئے

 

ہم کیا خزاں کے لمس سے سرشار ہو گئے

ہم کیا خزاں کے لمس سے سرشار ہو گئے


مٹھی میں جتنے گل تھے ، سبھی خار ہوگئے 


کیا کرلی مجھ غریب سے سورج نے دوستی 


گھر کے سبھی چراغ ہی بے کار ہوگئے 


ناکام  خواہشوں کا بھلا کیوں گلہ کریں


ہم حسرتوں میں پڑ کے ہی جی دار ہوگئے


اک عمر تک رہے ہیں دوانوں کے ہم نشیں 


لو دیکھو آج  ہم بھی سمجھدار ہوگئے


کیا  ماجرا ہے ہم کو بتا دیں یہ شیخ جی


ہم آپ سے ملے تو گنہگار ہوگئے 


 ماتھے پہ چھاپ یہ جو خدائی کی لگ گئی


گویا  کہ ہم بھی صاحبِ دستار ہو گئے


بادل جو  میری پیاس بجھانے کو  آئے تھے


وہ بھی تمہاری زلف کے غمخوار ہو گئے


کس درجہ سادہ لوح ہیں یہ اہل خواب بھی


جو  بیچنے چلے تھے ،خریدار ہو گئے


یہ لب جو  ان کے روبرو میرے نہ کھل سکے


شکوے تمام آنکھوں میں انبار ہو گئے


یہ دن بھی ہم کو وقت نے عابد دکھا دیا


جسموں سے ان کے سائے ہی بیزار ہوگئے


عابد بنوی

semore