گھر سے وہ نکلا تھا مینہ برستے میں

  

گھر  سے  وہ  نکلا  تھا مینہ  برستے میں


گھر  سے  وہ  نکلا  تھا مینہ  برستے میں


تمام  شہر لئے  چھتریاں  تھا رستے میں


مِلا تھا ایک ہی گاہک تو ہم بھی کیا  کرتے


سو خود کو بیچ دیا بے حساب سستے میں


کہاں کے مکتب و مُلّا کہاں کے درس و نصاب


بس اک کتابِ محبت رہی ہے بستے میں


یہ عمر بھر کی مسافت ہے، دل بڑا رکھنا


کہ لوگ ملتے بچھڑتے رہیں گے رستے میں


جو سب سے پہلے ہی رزمِ وفا میں کام آئے


فرازؔ ہم تھے انہیں عاشقوں کے دستے میں



 احمد فراز    

semore