حسن بے پرواہ تیرا،محفل ہے سودائی ت
 سنا ہے کھل گئےتھے ، ان کے گیسو سیرگلشن میں
فرصتِ گفتگو میں بھی حسرتِ گفتگو رہی
 عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا
 ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے
 حرف تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے
تیرے ملنے کا اک لمحہ
ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی
 اک و صل جس میں قرب کا کوئی گزر نہ ہو
گرانئ شب ہجراں دو چند کیا کرتے
ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ، ترے جاں نثار چلے گئے
 اَب تک نہ کُھل سکا کہ ، میرے رُوبَرُو ھے کون
اتنے خاموش بھی رہا نہ کرو