google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw مسافروں کو تھکن گام گام ہوتی ہے

مسافروں کو تھکن گام گام ہوتی ہے

مسافروں کو تھکن گام گام ہوتی ہے

 مسافروں کو تھکن گام گام ہوتی ہے

کرو قیام کہ ہمت تمام ہوتی ہے 


ہماری سمت بتا اے مِرے ستارہ شناس 

کہ ایک دن میں کئی بار شام ہوتی 


پلک جھپکنا گنہ گار کر رہا ہے مجھے

وہ اس وثوق سے محوِ کلام ہوتی 


کچھ اور دم میں مٹا دے گی خال و خد میرے

ہوائے دشت کہاں خوش خرام ہوتی ہے


شکست خوردہ ہجومِ عدو کو سہل نہ جان

ہر ایک دل میں صفِ انتقام ہوتی ہے 


کمیل سایہء دامانِ شہ ع میں آجاؤ 

کہ زندگی کی غزل اختتام ہوتی ہے 


کمیل کاظمی 💔