غزل
کوئی نقصان دے دیتے
یہی اک مان دے دیتے
ہے اچھا ! مر چکے ورنہ
تڑپ کے جان دے دیتے
سرِ تسلیم خم نفرت
مگر امکان دے دیتے
ہمیں دریافت کرتے تم
ہمیں پہچان دے دیتے
جو کہتے کھیلنا ہے بس
کھلا میدان دے دیتے
میسر لمس ہو جاتا
فقط ہیجان دے دیتے
تمہاری اور جو پہنچے
رہِ سنسان دے دیتے
جبیں پر ہاتھ رکھتے تم
ہمیں عرفان دے دیتے
تہی دامان فیصل کو
کوئی پرسان دے دیتے
فیصل اکرم