google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw ہوا سے دست و گریباں ہوا تو بھید کھُلا

ہوا سے دست و گریباں ہوا تو بھید کھُلا

ہوا سے دست و گریباں ہوا تو بھید کھُلا

 ہوا سے دست و گریباں ہوا تو بھید کھُلا 

میں خود دیے کی جگہ پر جلا تو بھید کھُلا 


ہم اپنے نقش بھی کھو بیٹھے اُس حسیں کیلیے   

ہمارے ہاتھ لگا آئنہ تو بھید کھلا 


میں چیختا ہی رہا بے اثر صدائیں دیں 

کسی طرف نہ ملا جب خدا تو بھید کھلا 


مجھے خبر ہی نہ تھی غم بھی ہیں زمانے میں 

جب آسماں مرے سر پر گرا تو بھید کھلا 


کسی نے ہاتھ بڑھایا نہ کوئی پاس آیا 

رہِ وفا پہ میں تھک کر گرا تو بھید کھُلا 


یہ حادثے مجھے پتھر سمجھ رہے تھے عدیل 

پھر ایک روز میں جب رو پڑا تو بھید کھلا


فرخ عدیل