زخمِ امید بھر گیا کب کا
قیس تو اپنے گھر گیا کب کا
آپ اک اور نیند لے لیجئے
قافلہ کُوچ کر گیا کب کا
اپنا منہ اب تو مت دکھاؤ مجھے
ناصحو، میں سُدھر گیا کب کا
نشہ ہونے کا بےطرح تھا کبھی
پر وہ ظالم اتر گیا کب کا
آپ اب پوچھنے کو آئے ہیں؟
دل میری جاں، مر گیا کب کا