اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے

اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے

آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے

اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے


دل لے کے مجھ سے دیتے ہو داغ جگر مجھے

یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر مجھے


ہر سو دکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے

کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے


ملتی نہیں ہے لذت درد جگر مجھے

بھولی ہوئی نہ ہو نگہ فتنہ گر مجھے


ڈالا ہے بے خودی نے عجب راہ پر مجھے

آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے


کرنا ہے آج حضرت ناصح سے سامنا

مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے


مرنا ہے ان کے پاؤں پہ رکھ کر سر نیاز

کرنا ہے آج قصۂ غم مختصر مجھے


میں دور ہوں تو روئے سخن مجھ سے کس لیے

تم پاس ہو تو کیوں نہیں آتے نظر مجھے...!