google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw میرے رشکِ قمر، تو نے پہلی نظر،

میرے رشکِ قمر، تو نے پہلی نظر،

میرے رشکِ قمر، تو نے پہلی نظر،

 میرے رشکِ قمر، تو نے پہلی نظر،

 جب نظر سے ملائی مزا آ گیا

برق سی گر گئی، کام ہی کر گئی،

 آگ ایسی لگائی مزا آ گیا


جام میں گھول کر حُسن کی مستیاں،

 چاندنی مسکرائی مزہ آگیا

چاند کے سائے میں اے میرے ساقیا! 

تو نے ایسی پلائی مزا آ گیا


نشہ شیشے میں انگڑائی لینے لگا، 

بزمِ رِنداں میں ساغر کھنکنے لگے

مئے کدے پہ برسنے لگیں مستیاں، 

جب گھٹا گھر کے چھائی مزا آ گیا


بے حجابانہ وہ سامنے آ گئے، 

اور جوانی جوانی سے ٹکرا گئی

آنکھ ان کی لڑی یُوں میری آنکھ سے،

 دیکھ کر یہ لڑائی مزا آ گیا


شیخ صاحب کا اِیماں بہک ہی گیا،

 دیکھ کر حُسنِ ساقی پگھل ہی گیا

آج سے پہلے یہ کتنے مغرور تھے،

 لُٹ گئی پارسائی مزا آ گیا


آنکھ میں تھی حیا ہر ملاقات پر،

 سُرخ عارض ہوئے وصل کی بات پر

اس نے شرما کے میرے سوالات پہ،

 ایسے گردن جُھکائی مزا آ گیا


اے فناؔ شکر ہے آج بعدِ فنا،

 اُس نے رکھ لی میرے پیار کی آبرُو

اپنے ہاتھوں سے اُس نے مری قبر پہ،

 چادرِ گُل چڑھائی مزا آ گیا


 فنا بلند