google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw کیا عشق تھا جو باعثِ رسوائی بن گیا

کیا عشق تھا جو باعثِ رسوائی بن گیا

کیا عشق تھا جو باعثِ رسوائی بن گیا

 کیا عشق تھا جو باعثِ رسوائی بن گیا

یارو ! تمام شہر تماشائی بن گیا


بِن مانگے مل گئے میری آنکھوں کو رَتجگے

میں جب سے ایک چاند کا شیدائی بن گیا


دیکھا جو اس کا دستِ حِنائی قریب سے

احساس گونجتی هوئی شہنائی بن گیا


برہم هوا تھا میری کسی بات پر کوئی

وہ حادثہ ہی وجہِ شناسائی بن گیا


پایا نہ جب کسی میں بھی آوارگی کا شوق

صحرا سمٹ کے گوشۂِ تنہائی بن گیا


تھا بے قرار وہ ، میرے آنے سے پیش تَر

دیکھا مجھے تو پیکرِ دانائی بن گیا


کرتا رہا جو روز مجھے اُس سے بد گماں

وہ شخص بھی اب اُس کا تمنائی بن گیا


وہ تیری بھی تو پہلی محبت نہ تھی قتیلؔ

پھر کیا هوا ، اگر کوئی ہرجائی بن گیا ؟


۔۔۔۔۔ قتیل شفائی ۔۔۔۔۔