google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw جب ترے شہر سے گزرتا ہوں

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں

 کس طرح روکتا ہوں اشک اپنے 

کس قدر دل پہ جبر کرتا ہوں 

آج بھی کارزار ہستی میں 

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں 


اس قدر بھی نہیں مجھے معلوم 

کس محلے میں ہے مکاں تیرا 

کون سی شاخ گل پہ رقصاں ہے 

رشک فردوس آشیاں تیرا 

جانے کن وادیوں میں اترا ہے 

غیرت حسن کارواں تیرا 

کس سے پوچھوں گا میں خبر تیری 

کون بتلائے گا نشاں تیرا 


تیری رسوائیوں سے ڈرتا ہوں 

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں 


حال دل بھی نہ کہہ سکا گرچہ 

تو رہی مدتوں قریب مرے 

کچھ تری عظمتوں کا ڈر بھی تھا 

کچھ خیالات تھے عجیب مرے 

آخر کار وہ گھڑی آئی 

بار ور ہو گئے رقیب مرے 

تو مجھے چھوڑ کر چلی بھی گئی 

خیر قسمت مری نصیب مرے 

اب میں کیوں تجھ کو یاد کرتا ہوں 

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں 


گو زمانہ تری محبت کا 

ایک بھولی ہوئی کہانی ہے 

تیرے کوچے میں عمر بھر نہ گئے 

ساری دنیا کی خاک چھانی ہے 

لذت وصل ہو کہ زخم فراق 

جو بھی ہو تیری مہربانی ہے 

کس تمنا سے تجھ کو چاہا تھا 

کس محبت سے ہار مانی ہے 

اپنی قسمت پہ ناز کرتا ہوں 

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں 


اشک پلکوں پہ آ نہیں سکتے 

دل میں ہے تیری آبرو اب بھی 

تجھ سے روشن ہے کائنات مری 

تیرے جلوے ہیں چار سو اب بھی 

اپنے غم خانۂ تخیل میں 

تجھ سے ہوتی ہے گفتگو اب بھی 

تجھ کو ویرانۂ تصور میں 

دیکھ لیتا ہوں روبرو اب بھی 

اب بھی میں تجھ کو پیار کرتا ہوں 

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں 


آج بھی کارزار ہستی میں 

تو اگر ایک بار مل جائے 

کسی محفل میں سامنا ہو جائے 

یا سر رہ گزار مل جائے 

اک نظر دیکھ لے محبت سے 

ایک لمحے کا پیار مل جائے 

آرزوؤں کو چین آ جائے 

حسرتوں کو قرار مل جائے 

جانے کیا کیا خیال کرتا ہوں 

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں 


آج میں ایسے مقام پر ہوں جہاں 

رسن و دار کی بلندی ہے 

میرے اشعار کی لطافت میں 

تیرے کردار کی بلندی ہے 

تیری مجبوریوں کی عظمت ہے 

میرے ایثار کی بلندی ہے 

سب ترے درد کی عنایت ہے 

سب ترے پیار کی بلندی ہے 

تیرے غم سے نباہ کرتا ہے 

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں 

تجھ سے کوئی گلہ نہیں مجھ کو 

میں تجھے بے وفا نہیں کہتا 

تیرا ملنا خیال و خواب ہوا 

پھر بھی نا آشنا نہیں کہتا 

وہ جو کہتا تھا مجھ کو آوارہ 

میں اسے بھی برا نہیں کہتا 

ورنہ اک بے نوا محبت میں 

دل کے لٹنے پہ کیا نہیں کہتا 

میں تو مشکل سے آہ بھرتا ہوں 

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں 


کوئی پرسان حال ہو تو کہوں 

کیسی آندھی چلی ہے تیرے بعد 

دن گزارا ہے کس طرح میں نے 

رات کیسے ڈھلی ہے تیرے بعد 

شمع امید صرصر غم میں 

کس بہانے جلی ہے تیرے بعد 

جس میں کوئی مکیں نہ رہتا ہو 

دل وہ سونی گلی ہے تیرے بعد 

روز جیتا ہوں روز مرتا ہوں 

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں 


لیکن اے ساکن حریم خیال 

یاد ہے دور کیف و کم کہ نہیں 

کیا کبھی تیرے دل پہ گزرا ہے 

میری محرومیوں کا غم کہ نہیں 

میری بربادیوں کا سن کر حال 

آنکھ تیری ہوئی ہے نم کہ نہیں 

اور اس کارزار ہستی میں 

پھر کبھی مل سکیں گے ہم کہ نہیں 

ڈرتے ڈرتے سوال کرتا ہوں 

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں 


سیف الدین سیف