google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw
صدمہ تو ہے مجھے بھی کہ تجھ سے جدا ہوں میں
صدمہ تو ہے مجھے بھی کہ تجھ سے جدا ہوں میں
صدمہ تو ہے مجھے بھی کہ تجھ سے جدا ہوں میں
لیکن یہ سوچتا ہوں کہ اب تیرا کیا ہوں میں
بکھرا پڑا ہے تیرے ہی گھر میں ترا وجود
بے کار محفلوں میں تجھے ڈھونڈتا ہوں میں
میں خودکشی کے جرم کا کرتا ہوں اعتراف
اپنے بدن کی قبر میں کب سے گڑا ہوں میں
کس کس کا نام لاؤں زباں پر کہ تیرے ساتھ
ہر روز ایک شخص نیا دیکھتا ہوں میں
کیا جانے کس ادا سے لیا تو نے میرا نام
دنیا سمجھ رہی ہے کہ سچ مچ ترا ہوں میں
پہنچا جو تیرے در پہ تو محسوس یہ ہوا
لمبی سی ایک قطار میں جیسے کھڑا ہوں میں
لے میرے تجربوں سے سبق اے مرے رقیب
دو چار سال عمر میں تجھ سے بڑا ہوں میں
جاگا ہوا ضمیر وہ آئینہ ہے قتیلؔ
سونے سے پہلے روز جسے دیکھتا ہوں میں
قتیل شفائی
semore