google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw "ہمیشہ یاد رکھوں گی"

"ہمیشہ یاد رکھوں گی"

"ہمیشہ یاد رکھوں گی"

 "ہمیشہ یاد رکھوں گی"


تمہیں ایسا جو لگتا ہے

تمہارے چھوڑ جانےسے

تعلق توڑ جانےسے

میں دنیاچھوڑ جاؤں گی 

تمہارا غم مناؤں گی

نہ  پھر سے مسکراؤں گی

شعور اِتنا تو رکھتے ہو

کوئ بچّے نہیں ہو تم

رویہ دیکھ لو اپنا 

دکھایا مجھ کو جو سپنا

مجھے اِتنا تو کہنے دو

ذرا سچّے نہیں ہو تم

چلو میں مان لیتی ہوں

چلو یہ بھی حقیقت جان لیتی ہوں

کہ تم معصوم سی میری محبت کو بھلا دو گے

وفا، ایثار، چاہت کے سبھی جذبے سلادو گے

اگرتم چھوڑ دو گے تو

تعلق توڑ دو گے تو

بہاریں پھر نہ آئیں گی؟

کہ خوشیاں روٹھ جائیں گی؟

گھڑی الٹی چلے گی کیا؟

تمہارے پیار کی باتیں ستائیں گی؟

مرے دل کو جلائیں گی؟

تمہاری بے وفائ پر 

کوئ تاویل دوں گی کیا؟

مجھے ٹھکرا  کے تم جاؤ

میں اِتنی ڈھیل دوں گی کیا؟

مری مانو تو سب چھوڑو

ذرا یہ ذہن میں رکھ لو

ابھی جو تم بچھڑتے ہو

میں سمجھوں گی کبھی میرا تعلق ہی نہ تھا تم سے

ہمیشہ یاد رکھوں گی

تم ایسے شخص ہو جس نے، 

بھرم آشا کا توڑا ہے

وفا دریا  کا موڑا ہے

مرا جو ساتھ چھوڑا ہے

ہمیشہ یاد رکھوں گی

تمہارے اِس رویۓ کو

اور اِس کے بعد تم یہ  بھی حقیقت یاد رکھ لینا۔۔۔۔ 

کہ اِس کے بعد بیدردی ! 

کبھی آگے کے برسوں میں، 

گلی کوچے، کسی بازار کے فٹ پاتھ پہ چلتے

ندامت دل میں، انسو آنکھ میں، افسوس سے ہاتھوں کو ملتے، 

کسی شاپنگ پہ شادی میں

کسی سر سبز وادی میں

کبھی بارش میں پانی میں

کوئ ناول کہانی میں

گم اپنی سوچ میں رہتے

کسی ہوٹل میں بیٹھے تم

کبھی مجھ کو وہاں پاؤ

تو میری سمت مت آنا

کسی بھی طور ممکن اب نہیں میرا  پلٹنا ہے

تمہیں پل پل تڑپنا ہے

جو رستے چھوڑ آئ ہوں

میں اُن پہ جا نہیں سکتی

مری بچپن کی عادت ہے 

میں جُھوٹا کھا نہیں سکتی