ایک غزل
مَیں محبتوں کا خمیر ہوں مجھے نفرتوں سے نکال کر
ذرا کھول دے تُو مرا قفس مری سانس کو تَو بحال کر
تری گفتگو کا ہو سلسلہ تو یہ سلسلہ بھی طویل ہو
مری بات کا تُو جواب دے سو جواب میں بھی سوال کر
میں تو خاک ہوں جو اڑاؤ گے مری واپسی کا پتہ نہیں
مَیں ہوا کے رحم و کرم پہ ہوں تجھے کیا ملے گا اچھال کر
یہاں اذنِ صوتِ زباں نہیں ، ترے کان ہیں تری زندگی
ابھی سر گرے گا زمین پر ، ذرا بولنے کی مجال کر
تُو بشر ہے خلقِ کمال ہے ، ترا مرتبہ بھی عظیم ہے
تُو مکین ِ وہم و گمان ہے ، ذرا سوچ ، فکر و خیال کر
تُو اسیرِ رقص و سرود ہے ، ترا کام ہے یہاں ناچنا
کبھی توڑ چاکری آئینہ ، کبھی کرچیوں پہ دھمال کر
یہ حقیر تنکے یہ گھاس خس سدا جھولتے ہیں بہاؤ پر
رواں آب میں کبھی مختلف ذرا تَیر کر بھی کمال کر
فیصل اکرم