google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw ـ ۔ ۔ بحضورِ تشنہ گانِ کربلا ۔ ۔ ۔

ـ ۔ ۔ بحضورِ تشنہ گانِ کربلا ۔ ۔ ۔

ـ ۔ ۔ بحضورِ تشنہ گانِ کربلا ۔ ۔ ۔

 ـ ۔ ۔ بحضورِ تشنہ گانِ کربلا ۔ ۔ ۔


نہ گُل کی تمنّا نہ شوقِ چمن ہے

یہ دل حُبِ آلِ نبیؐ میں مگن ہے


حُسینؑ و حَسنؑ ہیں وہ پیکر کہ جن میں​

بَتُولیؑ نجابت، رَسُولیؐ چلن ہے


مِرے سر میں سودائے زہراؑ و حیدر​ؑ

مِرے دل میں عشقِ رَسُولِؐ زمن ہے


تصوّر میں ہیں میرے سجّادؑ و زینب​ؑ

نگاہوں میں روئے حُسینؑ و حَسنؑ ہے


سکینہؑ کی وہ پیاس وہ ضبطِ گریہ​

کہ نہرِ فرات آج بھی نوحہ زن ہے


وہ معصوم اصغرؑ کی معصوم ہچکی

اِسی غم کے سکتے میں چرخِ کہن ہے


لہو میں اِدھر تُو نہایا ہے اصغر​ؑ

اُدھر تیرا باباؑ بھی خونیں کفن ہے


وہ زینبؑ جو کل تھی مدینے کی مالک​

وہ اَب کربلا میں غریبُ الوطن ہے


کہا ماں نے اکبرؑ کے قاتل سے، رُک جا​!

شبیہِ محمّدؐ ہے، نازک بدن ہے


یہ کیوں محوِ گریہ ہے محفل کی محفل​

یہاں کیا کوئی ذکرِ دارو رسن ہے؟


دکھا دے جھلک اب تو اے ماہِ زہراؑ

شہِ مُثَظَر، مُثَظَرِ انجمن ہے


کِھلے پھول ہیں جس میں زہراؑ کے ہر سُو​

محمّدؐ کا بھی کیا مہکتا چمن ہے


ستم سہہ کے بھی اُن کے تیور نہ بدلے​

وہی تمکنت ہے، وہی بانکپن ہے


حُسینؑ ابنِ زہراؑ کا مُکھڑا تو دیکھو​

علیؑ کی وجاہت، نبیؐ کی پبھن ہے


بہاؤ غمِ آلِ زہراؑ میں آنسو

یہ اہل مَوَدَّت کی رسمِ کُہن ہے


ثناء کیجئے کُھل کے آلِ عباؑ کی​

کہ ذِکر اُنکا خود آبروئے سُخن ہے


نہ چُھوٹے کہیں اُن کی نسبت کا دامن

بہت ہی بڑی دولت، اُن کی لگن ہے


نہ کیوں مُجھ پر اِترائے معجز بیانی​

کہ مُنہ میں علیؑ کا لُعابِ دہن ہے


نصِیرؔ اب میں کیوں مانگنے دُور جاؤں​

یہ مَیں ہُوں، یہ دروازۂ پنجتنؑ ہے۔


فرمُودۂ الشیخ سیّدپِیرنصِیرالدّین نصِیرؔ جیلانی،

رحمتُ اللّٰه تعالٰی علیہ، گولڑہ شریف

بیادِ بندۂ نصِیرؔ شاہد محی الدینؒ

از خالد شاہم، عابد محی الدّین ۔