غزل
مرا پیار تھا دوانہ مرا عشق تھا نرالا
چلو یاد تو کرے گا مجھے بھول جانے والا
کبھی لفظوں میں پرویا کبھی شعر میں سراہا
میں نےآتشِ نہاں سے ترے حسن کو اجالا
نہ جلاؤ ریگِ تُفتہ مرے دل کو یوں خدارا
کہیں پھٹ گیا مبادا مرے پاؤں کا یہ چھالا
ترے حلق میں پھنسے گی یہ غریب کی کمائی
تجھے ہضم کیسے ہوگا یہ غریب کا نوالا
مجھے داغ مت دکھانا میں زمانے کا جلا ہوں
میں نے گر دکھائی چھاتی ترا کیا بنے گا لالہ
میں مٹا سکا نہ حاویؔ یہ جہان کا اندھیرا
میں نے دل بڑا جلایا پہ نہ کرسکا اُجالا
(حاویؔ مومن آبادی)