google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw مرا پیار تھا دوانہ مرا عشق تھا نرالا

مرا پیار تھا دوانہ مرا عشق تھا نرالا

مرا پیار تھا دوانہ مرا عشق تھا نرالا

 غزل 


مرا پیار تھا دوانہ مرا عشق تھا نرالا

چلو یاد تو کرے گا مجھے بھول جانے والا


کبھی لفظوں میں پرویا کبھی شعر میں سراہا  

میں نےآتشِ نہاں سے ترے حسن کو اجالا


نہ جلاؤ ریگِ تُفتہ مرے دل کو یوں خدارا 

کہیں پھٹ گیا مبادا مرے پاؤں کا یہ چھالا


ترے حلق میں پھنسے گی یہ غریب کی کمائی

تجھے ہضم کیسے ہوگا یہ غریب کا نوالا 


مجھے داغ مت دکھانا میں زمانے کا جلا ہوں 

میں نے گر دکھائی چھاتی ترا کیا بنے گا لالہ 


میں مٹا سکا نہ حاویؔ یہ جہان کا اندھیرا 

میں نے دل بڑا جلایا پہ نہ کرسکا اُجالا 


(حاویؔ مومن آبادی)