google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw ازیتوں کے دیس سے حوصلوں کی زیست تک

ازیتوں کے دیس سے حوصلوں کی زیست تک

ازیتوں کے دیس سے حوصلوں کی زیست تک

 ازیتوں کے دیس سے حوصلوں کی زیست تک 


تم مجھے پہن سکتے ہو 

کہ میں نے اپنے آپ کو 

دھلے ہوئے کپڑے کی طرح 

کئی دفعہ نچوڑا ہے 

کئی دفعہ سکھایا ہے 


تم مجھے چبا سکتے ہو 

کہ میں چوسنے والی گولی کی طرح 

اپنی مٹھاس کی تہہ گھلا چکی ہوں 

تم مجھے رلا سکتے ہو 

کہ میں نے اپنے آپ کو قتل کر کے 

اپنے خون کو پانی پانی کر کے 


آنکھوں میں جھیل بنا لی ہے 

تم مجھے بھون سکتے ہو 

کہ میری بوٹی بوٹی 

تڑپ تڑپ کر 

زندگی کی ہر سانس کو 

الوداع کہہ چکی ہے 


تم مجھے مسل سکتے ہو 

کہ روٹی سوکھنے سے پہلے 

خستہ ہو کر بھربھری ہو جاتی ہے 

تم مجھے تعویذ کی طرح 

گھول کر پی جاؤ 

تو میں کلیساؤں میں بجتی گھنٹیوں میں 

اسی طرح طلوع ہوتی رہوں گی 

جیسے گل آفتاب