سارے گل رنگ ہیں اور سوزِ تپاں کچھ بھی نہیں
یہ جو منصور ہیں ان سب کے نہاں کچھ بھی نہیں
ہم نے سینکی ہوئی ہے چاند کی ہر آگ تو بس
جسم سے اٹھتی ہوئی لو مری جاں کچھ بھی نہیں
ایک میں ایک اندھیرا ہے یہاں تیسری تُو
اور ہم تینوں وہاں ہیں کہ جہاں کچھ بھی نہیں
ٹھیک ہے یار خرابوں کا نہیں کوئی وجُود
دشت اور رب جو ہیں جُز ایک گماں کچھ بھی نہیں
میرا ہونا بھی ضروری تھا نہ ہونے کے لئے
جو بھی موجود ہے وہ بعد ازاں کچھ بھی نہیں
یہ جو ہے سامنے بندہ یہ بڑی چیز ہے یار
اور وہ جو ہے فلاں ابنِ فلاں کچھ بھی نہیں
اسمِ اعظم سے میں بلقیسِ سبا زیر کروں
دیکھنے والے کہیں زیرِ لباں کچھ بھی نہیں
ہُو کروں اور دو عالم میں پکاریں پڑ جائیں
کوئی تکبیر کوئی حمد اذاں کچھ بھی نہیں
اک ترا پیکرِ گل رنگ ہے آنکھوں میں مری
ہیچ تر رنگ ہیں تصویرِ بتاں کچھ بھی نہیں
میں گناہا گیا ہوں جسم کی محرومی میں
اور مری جان مری جائے اماں کچھ بھی نہیں
العطش جل رہا ہوں رّبِ کلیم و اقلیم
تُو جو آ جائے نظر آگ، دھواں کچھ بھی نہیں
وہ جو دیکھے تو غزل بندِ قبا کھولے اور
جو نہ دیکھے تو کوئی طرزِ بیاں کچھ بھی نہیں
اے مری جان سے پیاری تری آنکھوں کے طفیل
گردشِ روز و شبِ عمرِ رواں کچھ بھی نہیں
تُو جو ہے تو ہے بر انگیختہ تخلیق کا حُسن
تو نہیں ہے تو ہے سارا ہی زیاں کچھ بھی نہیں
ذکی عاطف