google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw ہمیں سفر کی اذیت سے پھر گزرنا ہے

ہمیں سفر کی اذیت سے پھر گزرنا ہے

ہمیں سفر کی اذیت سے پھر گزرنا ہے

 ہمیں سفر کی اذیت سے پھر گزرنا ہے

تمہارے شہر میں فکر و نظر پہ پہرہ ہے


سزا کے طور پہ میں دوستوں سے ملتا ہوں

اثر شکست پسندی کا مجھ پہ گہرا ہے


 وہ ایک لخت خلاؤں میں گھورتے رہنا

کسی طویل مسافت کا پیش خیمہ ہے


یہ اور بات کہ تم بھی یہاں کے شہری ہو

جو میں نے تم کو سنایا تھا میرا قصہ ہے


ہم اپنے شانوں پہ پھرتے ہیں قتل گاہ لیے

خود اپنے قتل کی سازش ہمارا ورثہ ہے


آشفتہ چنگیزی