google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw آیا تھا، پاس بیٹھا بھی اور چلا گیا

آیا تھا، پاس بیٹھا بھی اور چلا گیا

آیا تھا، پاس بیٹھا بھی اور چلا گیا

 آیا تھا، پاس بیٹھا بھی اور چلا گیا

خاموش رہ کے سب کچھ کہہ تو نہیں گیا

کل تک عزیز تھی عاشق کو بھی زندگی

وہ وار موت کا بھی سہہ تو نہیں گیا

اب جسم ڈھانچہ ہے اک اور کچھ نہیں

سیلابِ درد میں دل بہہ تو نہیں گیا

کچھ مٹی قبر پر طاہر اب بھی باقی ہے

دشمن کوئی ہمارا رہ تو نہیں گیا