عشق بن دل میں روشنی کیا ہے ؟
موت سے پہلے خود کشی کیا ہے ؟
رنج کیا چیز ہے خوشی کیا ہے ؟
دیکھ سینے میں دل لگی کیا ہے
ہم نے سانپوں کو ہے لگایا گلے
ہم سے پوچھو یہ زندگی کیا ہے
مرحبا مرحبا اے تنہائی
اب مرے پاس میں کمی کیا ہے
مے لبِ حور چشمِ فردوسی
لوگ پوچھے ہیں مے کشی کیا ہے
ایک ہی جام جامِ کافوری
میں کہوں اور مے کشی کیا ہے
دیکھ تو سر پہ آسماں ہے ابھی
پھر یہ مایوسی بے کسی کیا ہے
جس نے کھا لی تری طلب کی قسم
ایک وہ جانے تشنگی کیا ہے
جان فانی جہان ہے فانی
کوئی بتلائے زندگی کیا ہے ؟
بندی کی بندگی میں گزری ہے
تو بتا اور عاشقی کیا ہے ؟
شعر کہنے میں خون لگتا ہے
جانتے ہو کہ شاعری کیا ہے ؟
روح نے چھیڑی ہے یہ سرگم کی
سیکھ لے مجھ سے بلبلی کیا ہے
جگر مراد آباد