رہے ہم راز دار الفت، پردہ نشیں برسوں
چھپایا بھید کے پردے مین، چاک آستیں برسوں
پس مردن میرا ماتم، رہے گا، ہر گھڑی برسوں
لہو روئے گا، گردوں خاک اڑائے گی، زمیں برسوں
میری تربت پہ، پول اس نے چڑھا کر، یہ دعا مانگی
خداوندا! پھلی پھولی رہے، یہ سر زمیں برسوں
چڑھا جاتے ہین وہ دو پھول، یہ انکی عنائت ہے
مزار عشق تو کانٹوں کے بھی قابل، نہین ہوتا
محبت پہ مری، سائیہ مدتوں لکھا، مقدر کا
رہے گی اسی سنگ در دلدار پہ جبیں اپنی
ہمارا دم نہین نکلے گا، جب تک تم نہین آو گے
تمہاری راہ دیکھے گی، نگاہ واپسی برسوں
نہ تم آئے،نہ اپنی یاد کو، بھیجا مرے دل مین
یہ یہ وہ گھر ہے، جسکو تم نے رکھا، بےمکیں برسوں
ھمارے جوش وحشت پر، گریباں مسکرایا ہے
ہنساہے بخیہء دامن مین؛چاک آستین برسوں
ادھر ہر بات پہ، قاتل کو برسوں لطف آیا یے
ادہر ہر زخم نے، دی ہے، صدائے، آفریں برسوں
وہی بعد مردن، قبر پر آنسوں بہاتے ہین
نہ آیا تھا جنہیں، میری محبت، کا یقیں برسوں
جدائی مین یہ دھڑکا تھا، کہ آنسو، باھر نہ آ جاہین
بجھائی پھر آنسوں سے، آہ عاشقی برسوں
اگر وہ اس بت کا جلوہ دیکھ لے، چکر میں آ جائے
سر بازار ناچے زاہد خلوت نشیں برسوں
مجھے! ناشاد کر کے، آسماں، راحت نہ پائے گا
مجھے برباد کر کے، خاک اڑائے گی، زمیں برسوں
میرے ماتم پہ، کاجل بن کے، ارماں بہہ گیا مجھ پر
لہو سے آنسوون روئے گی، چشم سرمدیں برسوں