پتھر لگے وہ پھول لگے یا خدا لگے
میری نظر کو جو بھی لگے تجھ کو کیا لگے
درپیش ہو فراق تو اُس سا نہ ہو کوئی
ہو ساعتِ وصال تو ہر ایک سا لگے
میں کتنی دیر اور بھٹکتا پھروں یہاں
اے کاش گھر کی سمت مجھے راستہ لگے
دوری سے جو لگے ہے مقدس مقام سا
جوں دستیاب ہو وہ مجھے بے حیا لگے
دیکھوں مَیں خود کو گرد میں لپٹا ہوا کہیں
اِک حُسن کا وجود مجھے آئینہ لگے
صداقت