غزل
نگاہِ تابِ تمنا کا مر گیا پانی
ہمارے سر سے مَحبت! گزر گیا پانی
تمہارا خشک رویہ سدا رہے قائم
ہماری عمر بھر آنکھوں میں بھر گیا پانی
رقم نہ خشک مزاجی تمہاری ہو پائی
شتاب آنکھ میں میرے اُتر گیا پانی
نگاہِ ناز سے ظالم ہمیں نہ کر دے خاک
ادائے نیم نگاہی سے کر گیا پانی
تپاکِ خونِ جگر سے مرے ،کماں ابرو!
تمہاری تیغِ نظر کا نکھر گیا پانی
غریقِ بحرِ مَحبت ہوا ہوں سر تا پا
جنونِ شوق کا سر سے گُزر گیا پانی
تمہارے چاہِ ذقن کے ہمیں نہیں پیاسے
خضر بھی یاں سے مرے یار بھر گیا پانی
پر ایک شمع کو پگھلا نہیں سکا حاویؔ
میں ایک آہ سے پتھر کو کر گیا پانی
حاویؔ مومن آبادی