google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو

اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو

 

اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو

اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو

اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو


یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد

تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو


لائی ہے اب اڑا کے گۓ موسموں کی باس

برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو


دل کو ہجوم نکہت مہ سے لہو کیے

راتوں کا پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو


پھرتے ہیں مثل موج ہوا شہر شہر میں

آوارگی کی لہر ہے ہم ہیں دوستو


آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول

عبرت سراۓ دہر ہے اور ہم ہیں دوستو


منیر نیازی