تجھے اے عشق سینے سے لگاوں،دیدہ و دل سے
تیرے ہر درد میں پنہاں،نشاط جاودانی ہے
یہ بتلا آور کچھ تیرے سوا،کونین میں بھی ہے
یہ مانا،جو بھی ہے ترے سوا،اے دوست،فانی ہے
نہ کر آلودہ لفظ و بیاں،شرح محبت کو
محبت ہی بجائے،خود زبان،بے زبانی ہے
تیرے حسن حیات افروز،جو دیکھا ہے جس دن سے
بہت مجھے عزیز اس دن سے،اپنی زندگانی یے
الہی!شرم تیرے ھاتھ یے،آداب محفل کی
وہ نازک طںع مہماں ہے،جنوں کی مہمانی
لئے پھرتا ھوں اک تصویر حست،اپنی آنکھوں میں
خدا بخشے! دل مرحوم کی،زندہ نشانی ہے
انہیں آںسو سمجھ کر یوں،نہ مٹی میں ملا ظالم
یہ پیام درد دل ہے،اور آنکھوں کی زبانی ہے