google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw بڑی مدت سے تیرا حسن دل بن کر دھڑکتا ہے

بڑی مدت سے تیرا حسن دل بن کر دھڑکتا ہے

بڑی مدت سے تیرا حسن دل بن کر دھڑکتا ہے

 میں ہوں وحشت میں گم میں تیری دنیا میں نہیں رہتا

بگولا رقص میں رہتا ہے صحرا میں نہیں رہتا


بڑی مدت سے تیرا حسن دل بن کر دھڑکتا ہے

بڑی مدت سے دل تیری تمنا میں نہیں رہتا


یہ پانی ہے مگر مژگاں کی شاخوں پر سلگتا ہے

یہ موتی ہے مگر دامان دریا میں نہیں رہتا


وہ جلوہ جو سکوت بزم یکتائی میں رہتا ہے

وہ جلوہ شورش پنہاں و پیدا میں نہیں رہتا


نہ کوئی موج رعنائی نہ کوئی سیل زیبائی

کوئی طوفاں بھی اب چشم تماشا میں نہیں رہتا


عجب کیا لا مکاں کو اک نیا زنداں سمجھ بیٹھے

یہ دیوانہ حد امروز و فردا میں نہیں رہتا


ظہیرؔ اک رشتۂ وحشت لیے پھرتا ہے مجنوں کو

وگرنہ کوئی اپنے آپ صحرا میں نہیں رہتا


 ظہیر کاشمیری