سینے میں اپنے مست قلندر لیے ہوئے
پیاسی بھٹک رہی ہوں سمندر لیے ہوئے
کرتی ہوں یہ بیاں سبھی دفتر لیے ہوئے
واعظ ہے مجھ کو عرش کا منبر لیے ہوئے
تیری زمین میں دلِ مضطر لیے ہوئے
چمکی ہوں آسمان میں اختر لیے ہوئے
ڈھونڈے ہے مجھ کو عشق بھی خنجر لیے ہوئے
اور میں کہ پہلی چوٹ ہوں دل پر لیے ہوئے
یہ کون جا رہا ہے مقدر لیے ہوئے
اک ٹکڑے میں کفن کے سکندر لیے ہوئے
بزمِ سخن میں آئی ہوں جوہر لیے ہوئے
اک ایک شعر میں دُرِ گوہر لیے ہوئے
اے عیش کے وے طیش کے جاہ و جلال بس
یہ دیکھ جا رہی ہوں قلندر لیے ہوئے
جاتا نہیں ہے اصل جہانوں سے عشق کا
خلقِ خدا میں عشق ہے مظہر لیے ہوئے
میرے سخن میں تاب ہے میرے جلال کی
عاشق ہے ذات ذاتِ منور لیے ہوئے
اک بار میرے خواب میں آئی تھی زندگی
مینا صراحی و سبو ساغر لیے ہوئے
محفل میں ہوش کی نہ یوں بے ہوش ہو کے گِر
اے شیخ جی یوں بغض کے نشتر لیے ہوئے
ملتا ہے مجھ سے قیس بڑے احترام سے
سر پر جنونِ عشق سا محشر لیے ہوئے
شہرو کے شعر کہنے کا انداز مرحبا
جب کہتی ہے غزل تو سمندر لیے ہوئے
شہرِ حسن