google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw بے ساختہ نگاہیں جو آپس میں مل گئیں

بے ساختہ نگاہیں جو آپس میں مل گئیں

بے ساختہ نگاہیں جو آپس میں مل گئیں

 انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ 

دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دیئے مسکرا کے ہاتھ 


بے ساختہ نگاہیں جو آپس میں مل گئیں 

کیا منہ پر اس نے رکھ لیے آنکھیں چرا کے ہاتھ 


یہ بھی نیا ستم ہے حنا تو لگائیں غیر 

اور اس کی داد چاہیں وہ مجھ کو دکھا کے ہاتھ 


بے اختیار ہو کے جو میں پاؤں پر گرا 

ٹھوڑی کے نیچے اس نے دھرا مسکرا کے ہاتھ 


گر دل کو بس میں پائیں تو ناصح تری سنیں 

اپنی تو مرگ و زیست ہے اس بے وفا کے ہاتھ 


وہ زانوؤں میں سینہ چھپانا سمٹ کے ہائے 

اور پھر سنبھالنا وہ دوپٹہ چھڑا کے ہاتھ 


قاصد ترے بیاں سے دل ایسا ٹھہر گیا

 گویا کسی نے رکھ دیا سینے پہ آ کے ہاتھ 


اے دل کچھ اور بات کی رغبت نہ دے مجھے 

سننی پڑیں گی سیکڑوں اس کو لگا کے ہاتھ 


وہ کچھ کسی کا کہہ کے ستانا سدا مجھے 

وہ کھینچ لینا پردے سے اپنا دکھا کے ہاتھ 


دیکھا جو کچھ رکا مجھے تو کس تپاک سے 

گردن میں میری ڈال دیئے آپ آ کے ہاتھ 


پھر کیوں نہ چاک ہو جو ہیں زور آزمائیاں 

باندھوں گا پھر دوپٹہ سے اس بے خطا کے ہاتھ 


کوچے سے تیرے اٹھیں تو پھر جائیں ہم کہاں 

بیٹھے ہیں یاں تو دونوں جہاں سے اٹھا کے ہاتھ 


پہچانا پھر تو کیا ہی ندامت ہوئی انہیں 

پنڈت سمجھ کے مجھ کو اور اپنا دکھا کے ہاتھ 


دینا وہ اس کا ساغر مے یاد ہے نظامؔ 

منہ پھیر کر ادھر کو ادھر کو بڑھا کے ہاتھ 


نظام رامپوری