میرے دل کے سبھی موسم اسی پہ جا کے کھلتے تھے
میں آدھی بات کرتی تھی وہ پوری جان لیتا تھا
ا گر چہ متفق ہو تا نہیں تھا و ہ ذرا سا بھی
ذرا سی بحث کر تا تھا مگر پھر ما ن لیتا تھا
حسیں انداز سے پڑھتا تھا وہ گلزار کی نظمیں
وہ جیسے ریت میں سے ہیر ے مو تی چھان لیتا تھا۔
میں لفظوں کا لبادہ اوڑھ لیتی تھی مگر پھر بھی
مجھے وہ بھیڑ میں بھی دور سے پہچان لیتا تھا۔
برستی تیز بارش میں بھی وہ آ جاتا تھا ملنے
جو اُسکے دل . میں آتی ہے ، تو پھر وہ ٹھان لیتا تھا
کبھی سر گو شیوں میں دھیمی دھیمی گفتگو کرنا
کبھی خا مو شیو ں کی سرد چادر تان لیتا تھا
کبھی خود سر، کبھی ضدی مگر اک بات اچھی تھی
میرے لکھے ھو ئے لفظوں کو وہ بھی مان دیتا تھا
میرے ھاتھوں پہ اپنے ھاتھ رکھ دیتا جب دانستہ
پھر اپنی مسکراھٹ سے وہ میری جان لیتا تھا
red more
نکال اب تیر سینے سے کہ جانِ پُر الم نکلے
our