google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw ستاتے ہیں دلِ ناشاد کو پھر شاد کرتے ہیں

ستاتے ہیں دلِ ناشاد کو پھر شاد کرتے ہیں

ستاتے ہیں دلِ ناشاد کو پھر شاد کرتے ہیں


 ستاتے ہیں دلِ ناشاد کو پھر شاد کرتے ہیں

کرم کے رُوپ میں وہ آئے دن بیداد کرتے ہیں

پسِ مُردن جو ہیں آسُودۂ خاک اُن کے کوچے میں

وہ اب کیُوں اُن کی مٹّی اِس طرح برباد کرتے ہیں  

دِل اُن کا، جان اُن کی، جو کہیں، تیّار ہیں قاصد

ذرا تم پُوچھ لو اُن سے، وہ کیا ارشاد کرتے ہیں

یہ خنجر آزمائی اور تم؟ توبہ ارے توبہ 

چلو، چھوڑو، ہٹو، یہ کام تو جلاّد کرتے ہیں 

رہی گنجائش اپنی اب نہ مسجد میں، نہ مندر میں

اُٹھو! اپنا الگ اِک میکدہ آباد کرتے ہیں

یہ مانا ہو گئی ہے مُستقل دُوری، مگر اب تک 

وہ ہم کو یاد کرتے ہیں، ہم اُن کو یاد کرتے ہیں

نصِیرؔ اچّھا ہُوا جو کچھ ہُوا دُنیائے اُلفت میں 

مِرے احباب کیا ذکرِ دلِ ناشاد کرتے ہیں ۔


سیّدپِیرنصِیرالدّین نصِیرؔ

read more

پیاسی بھٹک رہی ہوں سمندر لیے ہوئے

our