ہمیں پتا ہے ہمیں کون کیا سمجھتا ہے
کوئی گمان ، کوئی واہمہ سمجھتا ہے
وجود پاکے بھی ہم بے وجود رہتے ہیں
مگر یہ دل جو فنا کو بقا سمجھتا ہے
عجیب شخص ہے جو ہم مزاج ہو کر بھی
مرے گریز کو میری انا سمجھتا ہے
وہ آ کے پاس کوئی مشورہ نہیں دیتا
وہ رہ کے دور مرا مسئلہ سمجھتا ہے
کہیں وقار میں اس کے کمی نہ آ جائے
کسی کی بھول کو بھی جو خطا سمجھتا ہے
کسی کسی کی نظر میں کمال ہوتا ہے
کوئی کوئی ہی کسی کی ادا سمجھتا ہے
یہ ساحلوں سے بغض و عناد لہروں کا
کوئی سفینہ یا پھر ناخدا سمجھتا ہے
نجانے اتنا اذیت پسند کیوں ہے تو ؟
جو غم خوشی کو ، وفا کو جفا سمجھتا ہے
ہماری زیست کا معیار بن گیا ہے یوں
کہ ہم کو وقت بھی اک حادثہ سمجھتا ہے
وہ آدمی ہے ذرا کم نگاہ سو عابد
کسی کو بندہ ، کسی کو خدا سمجھتا ہے
عابد بنوی
read more
ہم تھے، ہمارے ساتھ کوئی تیسرا نہ تھا
our