جیسے کوئی محراب نُما زخم ہو کاشف
ماتھے پہ رقم ایسے میرے عشق ہوا ہے
کِھلتے ہوئے خوابوں کی قسم عشق ہوا ہے
مجھ کو تری آنکھوں سے صنم عشق ہوا ہے
اس راہ پہ چل کر مجھے جانا ہے سرِ عرش
جانا ہے کہ اب مجھ کو بہم عشق ہوا ہے
اک نعرہِ مستانہ ہے جاری مرے لب پر
چُپ ہو گئے موجود و عدم عشق ہوا ہے
یہ عشق ہے جھکنا نہیں سیکھا کبھی اس نے
کب حسن کے دربار پہ خم عشق ہوا ہے
جیسے کوئی محراب نما زخم ہو کاشف
ماتھے پہ مرے ایسے رقم عشق ہوا یے
کاشف علی کاشف
read more
مرا اخلاص بھی اک وجہ دل آزاری ہے
our