google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے

ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے

 

ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے

ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے 


آئے تو سہی بر سرِ الزام ہی آئے 


حیران ہیں، لب بستہ ہیں، دل گیر ہیں غنچے


خوشبو کی زبانی تیرا پیغام ہی آئے 


لمحاتِ مسرت ہیں تصوّر سے گریزاں


یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے


تاروں سے سجالیں گے رہ شہرِ تمنّا


مقدور نہیں صبح ، چلو شام ہی آئے


کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے 


جس راہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے


تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ کوئے تمنّا


کام آئے تو پھر جذبہ بے نام ہی آئے


باقی نہ رہے ساکھ ادا دشتِ جنوں کی 


دل میں اگر اندیشہ انجام ہی آئے 


   ادا جعفری مرحومہ 

semore