google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw رلاتی ہے دکھی دلوں کی زبوں حالی مجھ کو

رلاتی ہے دکھی دلوں کی زبوں حالی مجھ کو

رلاتی ہے دکھی دلوں کی زبوں حالی مجھ کو

 رلاتی ہے دکھی دلوں کی زبوں حالی مجھ کو 

خدا کرے کہ اب قائم عشق کے بازار نہ ہوں 


ستم گروں سے یہ کہہ دو کہ ہاتھ ہولا رکھیں

درد تو ہو مگر تکلیف کے آثار نہ ہوں 


ہم ایسے نرم دل کہ ! دعا دیتے ہیں 

راستے غموں کے بھی اب دشوار نہ ہوں


ہم ہیں وہ لوگ جو لہجوں سے ڈراکرتے تھے

اب تو مر جائیں بھی تو حوصلے مسمار نہ ہوں