رلاتی ہے دکھی دلوں کی زبوں حالی مجھ کو
خدا کرے کہ اب قائم عشق کے بازار نہ ہوں
ستم گروں سے یہ کہہ دو کہ ہاتھ ہولا رکھیں
درد تو ہو مگر تکلیف کے آثار نہ ہوں
ہم ایسے نرم دل کہ ! دعا دیتے ہیں
راستے غموں کے بھی اب دشوار نہ ہوں
ہم ہیں وہ لوگ جو لہجوں سے ڈراکرتے تھے
اب تو مر جائیں بھی تو حوصلے مسمار نہ ہوں