google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw جو ہو رہے ہیں حساب سارے دراز قامت

جو ہو رہے ہیں حساب سارے دراز قامت

جو ہو رہے ہیں حساب سارے دراز قامت


 جو ہو رہے ہیں حساب سارے دراز قامت 

گناہ میرے عذاب سارے دراز قامت


ہمیں میسر ہوا ہے سایہ نہ پھل کہیں پر 

شجر ہوئے ہیں نواب سارے دراز قامت 


کفن لپیٹے ہوئے امنگوں کا سو رہے ہیں 

مگر ہمارے ہیں خواب سارے دراز قامت 


دہکتے سورج کی نبض مدھم سی ہو رہی ہے 

ہیں گرچہ اہلِ شہاب سارے دراز قامت


نصیب جنت ، مگر ہے مرنے کی شرط لاگو

شکم ہیں خالی ، ثواب سارے دراز قامت


ملا کے مٹی میں دیکھ تہذیب کے اثاثے 

چہک رہے ہیں خراب سارے دراز قامت 


کچل کے فیصل کو روند ڈالا بقدر جثہ 

وہاں تھے عزت مآب سارے دراز قامت


فیصل اکرم گیلانی