google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا

عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا

 

عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا


عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا


کبھی جان صدقے ہوتی، کبھی دل نثار ہوتا


کوئی فتنہ تا قیامت نہ پھر آشکار ہوتا


ترے دل پہ کاش ظالم مجھے اختیار ہوتا


جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا


تمہیں منصفی سے کہہ دو، تمہیں اعتبار ہوتا


غمِ عشق میں مزہ تھا جو اسے سمجھ کے کھاتے


یہ وہ زہر ہے کہ آخر، مئے خوشگوار ہوتا


نہ مزہ ہے دشمنی میں، نہ ہے لطف دوستی میں


کوئی غیر غیر ہوتا، کوئی یار یار ہوتا


یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی


نہ تجھے قرار ہوتا، نہ مجھے قرار ہوتا


ترے وعدے پر ستمگر، ابھی اور صبر کرتے


اگر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا


یہ وہ دردِ دل نہیں ہے کہ ہو چارہ ساز کوئی


اگر ایک بار ملتا، تو ہزار بار ہوتا


گئے ہوش تیرے زاہد جو وہ چشمِ مست دیکھی


مجھے کیا الٹ نہ دیتی، جو نہ بادہ خوار ہوتا


مجھے مانتے سب ایسا کہ عدو بھی سجدے کرتے


درِ یار کعبہ بنتا جو مرا مزار ہوتا


تمہیں ناز ہو نہ کیونکر، کہ لیا ہے داغ کا دل


یہ رقم نہ ہاتھ لگتی، نہ یہ افتخار ہوتا


نواب داغ دهلوی

read more