تم نے بھیجا پیامِ سحر، شکریہ، ہم پہ ڈالی کرم کی نظر شکریہ
شکریہ مالکِ بحر و بر شکریہ، شکریہ اور بارِ دگر شکریہ
تم کہ بنتے رہے اور بگڑتے رہے جبر سہتے رہے گُھٹ کے
مرتے رہے
میرے شعروں پہ واہ واہ بھی کرتے رہے، اس نوازش کا اہل
نظر شکریہ
دہر کے سب خداؤں کا معتوب ہوں، میں مسیحا نہیں اور
مصلوب ہوں
ان کے جاہ و حشم سے نہ مرعوب ہوں، پھر بھی اس ساتھ کا
ہمسفر شکریہ
رات کا طول اور اس کی یہ تیرگی، اس پہ کم ذات کی ناروا
خواجگی
سخت مشکل میں ہے قوم کی زندگی، جیسے تیسے بھی کی
ہے بسر شکریہ
خلقتِ شہر تھی سخت نامہرباں، پھر بھی چلتا رہا درد کا کارواں
پا لیا آپ نے منزلوں کا نشاں گو کہ دشوار تھی یہ ڈگر شکریہ
غزل
حسین ثاقب