تشنہ لب ہوں اداس بیٹھا ہوں
میں سمندر کے پاس بیٹھا ہوں
وہ نگاہیں چرائے بیٹھے ہیں
میں سراپا سپاس بیٹھا ہوں
میں بھی کیا قاتلوں کی بستی میں
لے کے جینے کی آس بیٹھا ہوں
آپ کیا ظرف آزماتے ہیں
پی کے برسوں کی پیاس بیٹھا ہوں
اک مکمل کتاب تھا پہلے
ہو کے اب اقتباس بیٹھا ہوں
آخری دن ہیں عمر کے اعجازؔ
قبر کے آس پاس بیٹھا ہوں