google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw تشنہ لب ہوں اداس بیٹھا ہوں

تشنہ لب ہوں اداس بیٹھا ہوں

تشنہ لب ہوں اداس بیٹھا ہوں

 تشنہ لب ہوں اداس بیٹھا ہوں

میں سمندر کے پاس بیٹھا ہوں


وہ نگاہیں چرائے بیٹھے ہیں

میں سراپا سپاس بیٹھا ہوں


میں بھی کیا قاتلوں کی بستی میں

لے کے جینے کی آس بیٹھا ہوں


آپ کیا ظرف آزماتے ہیں

پی کے برسوں کی پیاس بیٹھا ہوں


اک مکمل کتاب تھا پہلے

ہو کے اب اقتباس بیٹھا ہوں


آخری دن ہیں عمر کے اعجازؔ

قبر کے آس پاس بیٹھا ہوں