ہاں ہاں مجھی میں صبر کو وسعت بھی بہت تھی

ہاں ہاں مجھی میں صبر کو وسعت بھی بہت تھی


ہاں ہاں مجھی میں صبر کو وسعت بھی بہت تھی 

اے عشق ہے یہ عشق میں وحشت بھی بہت تھی 


دامن میں مرے ضبط کی دولت بھی بہت تھی 

اس پر مری وحشت مجھے راحت بھی بہت تھی 


یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں تھی سمندر 

اے ان دنوں تو مجھ میں  نزاکت بھی بہت تھی 


 اے جا بجا ہر سُو  مری آنکھیں تری صورت

ہاں ہاں مجھی کو تم سے محبت بھی بہت تھی 


اب تو تجھے فرصت بھی نہیں میرے لیے ہاں 

کل تک تو تجھے میری ضرورت بھی بہت تھی 


اک پل گھڑی اک پاس مجھے یار وے تیرا 

ہوتا جو میسر تو وہ ساعت بھی بہت تھی 


مجھ میں تو ترے پیار کی چاہت سی ہے باقی 

ہاں ہاں کہ ترے ساتھ کی دولت بھی بہت تھی 


کچھ آپ کو الفت کی ذرا لاج نہیں ہے 

اور کچھ تو مرے خوں میں بغاوت بھی بہت تھی 


اے یار سخی تیری عطائوں کے میں صدقے 

میرے لیے تو جسم کی تربت بھی بہت تھی


Parvin shakir