زلف جب کر کے سحر جاتی ہے
وے زمانے کو خبر جاتی ہے
میرے سینے میں اتر جاتی ہے
رات تو خیر گزر جاتی ہے
دن بھی ہوتا ہے پہ ہوتا ہی نہیں
رات ہی رات ٹھہر جاتی ہے
چودہ ہی طبقے یہ جلاتی ہے
آہ بس اپنے اثر جاتی ہے
چودہ طبقے میں سبھی کو نالہ
آہ تو عرش گزر جاتی ہے
وقت جب چوٹ لگاتا ہے کہیں
ہاے الفت بھی مُکر جاتی ہے
یہ محبت ہے نہیں مر سکتی
پھر کسی دل میں اتر جاتی ہے
میں تو مقتل کی طرف بڑھتی ہوں
عاشقی اپنے ہنر جاتی ہے
تجھ کو مانگوں ہوں مِرے خالق سے
یہ دعا کر کے اثر جاتی ہے
جب کلی کوئی چٹخ جاتی ہے
سچ کہُوں اور نکھر جاتی ہے
اے کہ تنہائی رہو سنگ مرے
چھوڑ کر مجھ کو کدھر جاتی ہے
بند جب آنکھ کرے ہے شہرو
آسماں تک یہ نظر جاتی ہے