_____ یومِ عاشُور_____
جب چلا اِبنِ علیؑ بہرِ وغا زمزمہ خواں
سر بکف، نعرہ بلب، سوز بدِل، شعلہ بجاں
رُعب سے لشکرِ بد خواہ تھا سرگرمِ فُغاں
دَم بخُود، خاک بسر، لرزہ بتَن، نوحہ کُناں
تیغِ شبّیرؑ نے جوہر وہ دکھائے اپنے
خاک میں مِل گئے سفّاک عَدُو کے سَپنے
سَر پہ زینبؑ نے جو سَر چُوم کے باندھی دستار
صدقے ہونے کو مدینے سے چلی بادِ بہار
مُصطفٰےؐ نے یہ ادا دیکھ کے چُومے رُخسار
بَن سنور کر جو ہُوا دُلدُلِ حیدرؑ پہ سوار
شور اُٹّھا کہ گُلِ باغِ بتُولؑ آتا ہے
مرحبا! دینِ شہادت کا رَسُول آتا ہے
بے کسوں اور غریبوں کا سہارا، وہ حُسینؑ
ظالموں کے جو مُقابل تھا صف آرا، وہ حُسینؑ
حضرتِ فاطمہؑ کے عزم کا تارا، وہ حُسینؑ
تھا پیَمبرؐ کو دل و جان سے بھی پیارا، وہ حُسینؑ
اُسؑ کو گُلزارِ رسالتؐ کی کلی کہتے ہیں
ہم عقیدت سے، حُسینؑ ابنِ علیؑ کہتے ہیں
خود وفا کیش ہے اور درسِ وفا دیتا ہے
حق پہ آنچ آئے، تو گھر بار لُٹا دیتا ہے
مورِ بے مایہ کو، اقبالِ ھُما دیتا ہے
اپنے منگتوں کو شہنشاہ بنا دیتا ہے
کج کلاہی پہ نہ جا، اِس میں دھرا ہی کیا ہے
درِ شبّیرؑ جو مِل جائے، تو شاہی کیا ہے
آخری سجدے میں آیا جو وہ اخلاص مآب
اُٹھ گیا بندہ و معبُود کے مابین حجاب
لڑ گئی حُسنِ حقیقی سے نگاہِ بے تاب
بڑھ کے جبریلؑ نے تھامی مِرے مولاؑ کی رکاب
مُصطفٰےؐ جُھوم گئے، پیکِ قضا جُھوم گیا
جو بھی بندہ تھا خُدا کا، بخدا جُھوم گیا
فرمُودۂ الشیخ سیّدپِیرنصِیرالدّین نصِیرؔ جیلانی،
رحمتُ اللّٰه تعالٰی علیہ، گولڑہ شریف
بیادِ بندۂ نصِیرؔ شاہد محی الدّینؒ
از خالد شاہم، عابد محی الدّین،
محمد نظام محی الدّین۔