یہ اور بات کہ دنیا نہ سُن سکی ورنہ

یہ اور بات کہ دنیا نہ سُن سکی ورنہ

 غزل  

یہ اور بات کہ دنیا نہ سُن سکی ورنہ 

سکوتِ اہلِ نظر ہے بجائے خود آواز 

یہ بے سبب نہیں شام و سحر کے ہنگامے

اُٹھا رہا ہے کوئ پردہ ہائے راز و نیاز 

ترا خیال بھی تیری طرح مکمل ہے 

وہی شباب،وہی دلکشی،وہی انداز 

شراب و شعر کی دنیا بدل گئ لیکن 

وہ آنکھ ڈھونڈ ہی لیتی ہے بیخودی کا جواز 

عروج پر ہے مرا درد ان دنوں ناصر 

مری غزل میں دھڑکتی ہے وقت کی آواز


ناصر کاظمی