بدن چرائیں ہتھیلیوں پر گلاب رکھ کر

بدن چرائیں ہتھیلیوں پر گلاب رکھ کر

 بدن چرائیں ہتھیلیوں پر گلاب رکھ کر 

گناہ کرتے ہیں ہم نظر میں ثواب رکھ کر 


تمام الفاظ کے معانی بدل گئے ہیں 

وہ اپنے چہرے پہ سو گئی ہے کتاب رکھ کر 


کہاں تھی پہلے مری دریچوں سے آشنائی 

میں مطمئن تھا فقط فصیلوں میں باب رکھ کر 


بڑی سہولت سے شام _ فرقت کٹی ہماری 

کسی کو سوچا ہے سامنے ماہتاب رکھ کر  


ہمیں لگا تھا وہ ٹوٹے پھولوں کا غم کرے گا 

اور اس نے تازہ اٹھا لئے ہیں خراب رکھ کر

اظہر فراغ