غزل
جھیل جو درمیان آئے گی
پیار کی راز دان آئے گی
میرے کردار کو تو مرنے دو
پھر کہانی میں جان آئے گی
روح کا بوجھ اب گرانا ہے
ہائے ورنہ تھکان آئے گی
میرا چَھّرہ نکال دو صاحب
پھر پروں میں اُڑان آئے گی
بس یہی آس ہے اندھیرے میں
جگنوؤں کی دکان آئے گی
ایسا لگتا ہے تیری میری بھی
عشق کی داستان آئے گی
کاٹ دی جو زبان فیصل کی
خامشی ترجمان آئے گی
فیصل اکرم