google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw جھیل جو درمیان آئے گی

جھیل جو درمیان آئے گی

جھیل جو درمیان آئے گی

  غزل 

جھیل جو درمیان آئے گی 

پیار کی راز دان آئے گی

میرے کردار کو تو مرنے دو

پھر کہانی میں جان آئے گی

روح کا بوجھ اب گرانا ہے 

ہائے ورنہ تھکان آئے گی 

میرا چَھّرہ نکال دو صاحب 

پھر پروں میں اُڑان آئے گی 

بس یہی آس ہے اندھیرے میں 

جگنوؤں کی دکان آئے گی

ایسا لگتا ہے تیری میری بھی 

عشق کی داستان آئے گی

کاٹ دی جو زبان فیصل کی 

خامشی ترجمان آئے گی

فیصل اکرم