اپنے ہاتھوں سے تو سنوار مجھے
میرے سینے سے لگ , نکھار مجھے
عین ممکن ہے نبض چل ہی پڑے
اس کے لہجے میں بس پکار مجھے
تم سے بہتر میں جانتا ہوں اسے
یار کرنے دو انتظار مجھے
دوست وعدہ ہے بھاگا آؤں گا
چاہے مقتل میں تو پکار مجھے
میں ستارے بھی توڑ لاتا دوست
رب اگر دیتا اختیار مجھے
مٹ ہی جائے نشان و نام مرا
عشق ایسی نہ مار مار مجھے
زندگی تو تو ساتھ دیتی مرا
کتنا تھا تجھ پہ اعتبار مجھے
اضطرابی ہی اظطرابی کیوں ؟
کیوں کہیں بھی نہیں قرار مجھے
شاعری ، گیت ، چائے اور یادیں
یہ مرض ہی ہیں تین چار مجھے
عمر فِدا