کہا تھا تم سے میں نے یہ،

کہا تھا تم سے میں نے یہ،

 سنو جاناں!

کہا تھا تم سے میں نے یہ،

مجھے ڈھلتا ہوا سورج بہت دلچسپ لگتا ہے

مجھے موسم بہاروں کا نہیں بھاتا

مگر جو رُت خزاں کی ہے مجھے مسحور کرتی ہے،

چمکتا چاند تو بھاتا ہے ہر اک کو، 

مجھے پر چاند پہلی رات کا اور زرد سا،

پھیکا سا بھاتا ہے

مجھے رنگوں میں بھی وہ رنگ ہیں بھاتے

کہ جو نہ شوخ ہوں، 

نہ بھڑکے ہوں، نہ تیکھے ہوں،

ڈ ھلتی شام کے جیسے ،

خزاں کے پھول کے جیسے،

ٹھٹھرتی کالی شب میں زرد، مریل چاند کے جیسے،

تمہیں یہ بھی کہا تھا ناں؟

کہ مجھ کو خوف آتا ہے

 فقط تاریک لمحوں سے،

اندھیرے میں گھٹن محسوس کرتی ہوں،

بہت بے بس سا لگتا ہے وجود اپنا

کہ جب ایسا اندھیرا ہو 

کہ آنکھیں کھول کر بھی یوں لگے کہ بند ہیں آنکھیں،

مجھے روشن سدا رکھنا...

ذرا دیکھو ادا اپنی،

کہ کتنی سادگی سے مجھ پہ تم نے کرم فرمایا

مجھے کتنی سہولت سے یہ سارے رنگ دے ڈالے

میرے چہرے پہ ڈھلتی شام کی زردی

میرے لہجے میں سوکھے ، مردہ پتوں کی کسک بھردی،

میری آنکھوں میں مدھم چاند کے سائے،

میری سوچوں سے سارے رنگ جیسے کھو گئے سے ہیں،

فقط اک ہجر کا بوسیدہ میلا رنگ باقی ہے،

مجھے کتنی محبت سے ہر اک محبوب سی رُت تم نے بخشی ہے

مگر دیکھو! 

اسی انجان پن میں، بھولپن میں ہی

میرے اندر کی، باہر کی

وہ ساری روشنی تم مجھ سے لے بیٹھے!

مجھے ایسی گھٹن دے دی

کہ آنکھیں کھول کر بھی یوں لگے کہ بند ہیں آنکھیں،

تمہیں کتنا کہا تھا ناں؟

مجھے روشن سدا رکھنا۔۔!